آنکھوں سے کبھی دل میں اتر کیوں نہیں جاتا
آتا ہے گلی میں مرے گھر کیوں نہیں جاتا
زیتون کے پتے لئے آیا ہے پرندہ
سیلاب محبّت کا اتر کیوں نہیں جاتا
کشتی کے مسافر نے بہت چپّو چلایا
رستے میں جو آتا ہے بھنور کیوں نہیں جاتا
مدّت ہوئی چھوڑے ہوئے دنیا کی لگن تو
جیون میں ہے جو مدّو جزَر کیوں نہیں جاتا
بے وقت چلا جاؤں گا تکلیف تو ہو گی
خوش ہو گے پتہ کر کے اُدھر کیوں نہیں جاتا
چپکے سے کسی روز چلے آؤ گے ملنے
سپنا مری آنکھوں سے یہ دن بھر نہیں جاتا
منزل تھی نظر میں تو چلے راہ گزر پر
جب وصل ہوا ہے تو سفر کیوں نہیں جاتا
جیون میں کبھی عُسر کبھی یُسر مقدّر
آہوں کا مری اب بھی اثر کیوں نہیں جاتا
آہٹ سے مرے آنے کی ہے اس کو توجّہ
جھک جانے کو چوکھٹ پہ یہ سر کیوں نہیں جاتا
ملتے رہے اِخلاص لئے دل میں ہر اک سے
طارق وہ چلے جائیں گے ڈر کیوں نہیں جاتا

0
24