شب کی کالک کے صد منتظر رہتے ہیں
رات کے ہم بے حد منتظر رہتے ہیں
کھوج سی رہتی ہے اب ہمیں زخموں کی
زخموں کے ہم اشد منتظر رہتے ہیں
ہم وہ راحت پرست آدمی ہیں جگر
جن کے ہر نیک و بد منتظر رہتے ہیں
یہ نگر ہے دَرِندوں کا جانم یہاں
دل چَبانے کو گِدھ منتظر رہتے ہیں
یہ کتابِ ستم جو لکھی دل پے ہے
کب ہو گی جانے رد ، منتظر رہتے ہیں

0
25