کچھ مہینوں میں سب خمار گیا
دین سے ہی، وہ دین دار گیا
دل تو اپنی گلی میں ہی رہیو
وہ بھروسہ وہ اعتبار گیا
دی زمانے کو تنہا میں نے شکست
ہے عجب خود سے ہی میں ہار گیا
یہ دل اس دشتِ شوق میں یارو
بے قرار آیا، بے قرار گیا
کیا کہوں اس سرابِ قربت میں
دل گیا، لطفِ انتظار گیا
مجھ پہ کیا خاک وقت بھی رکتا
جو یہاں تھا، وہ ہر دیار گیا
باغِ کے سب گلاب زرد پڑے
وہ گئی، موسمِ بہار گیا
کر رہا تھا میں اس گلی سے گریز
پر یہ دل تھا کہ بار بار گیا
اک تمنا کا زہر پی بیٹھا
دل وہیں تھا جہاں قرار گیا
دھوم تھی درد کی گلی میں بہت
اور میں خود سے سازگار گیا

26