| کچھ مہینوں میں سب خمار گیا |
| دین سے ہی، وہ دین دار گیا |
| دل تو اپنی گلی میں ہی رہیو |
| وہ بھروسہ وہ اعتبار گیا |
| دی زمانے کو تنہا میں نے شکست |
| ہے عجب خود سے ہی میں ہار گیا |
| یہ دل اس دشتِ شوق میں یارو |
| بے قرار آیا، بے قرار گیا |
| کیا کہوں اس سرابِ قربت میں |
| دل گیا، لطفِ انتظار گیا |
| مجھ پہ کیا خاک وقت بھی رکتا |
| جو یہاں تھا، وہ ہر دیار گیا |
| باغِ کے سب گلاب زرد پڑے |
| وہ گئی، موسمِ بہار گیا |
| کر رہا تھا میں اس گلی سے گریز |
| پر یہ دل تھا کہ بار بار گیا |
| اک تمنا کا زہر پی بیٹھا |
| دل وہیں تھا جہاں قرار گیا |
| دھوم تھی درد کی گلی میں بہت |
| اور میں خود سے سازگار گیا |
معلومات