| عجیب شخص ہے مجھ کو سنبھال رکھتا ہے |
| مجھے رہے نہ رہے وہ خیال رکھتا ہے |
| ہیں اُس کے ہونٹ سراپا محبت و الفت |
| پھر اُس پہ یہ کہ وہ لہجہ کمال رکھتا ہے |
| جو مسکرائے کبھی دھوپ چھاؤں کر گُزرے |
| وہ رُخ پلٹنے کی ایسی مجال رکھتا ہے |
| کبھی جو بات مکمل سی ہونے والی ہو |
| وہ میرے ہونٹوں پہ تازہ سوال رکھتا ہے |
| اُسے خبر ہے وہ محتاجِ مثل ہے ہی نہیں |
| وفا کی لوح میں اپنی مثال رکھتا ہے |
| میں خام چہروں سے گزرا ہوا مسافر ہوں |
| کہیں نہیں ہے وہ ایسا جمال رکھتا ہے |
معلومات