عجیب شخص ہے مجھ کو سنبھال رکھتا ہے
مجھے رہے نہ رہے وہ خیال رکھتا ہے
ہیں اُس کے ہونٹ سراپا محبت و الفت
پھر اُس پہ یہ کہ وہ لہجہ کمال رکھتا ہے
جو مسکرائے کبھی دھوپ چھاؤں کر گُزرے
وہ رُخ پلٹنے کی ایسی مجال رکھتا ہے
کبھی جو بات مکمل سی ہونے والی ہو
وہ میرے ہونٹوں پہ تازہ سوال رکھتا ہے
اُسے خبر ہے وہ محتاجِ مثل ہے ہی نہیں
وفا کی لوح میں اپنی مثال رکھتا ہے
میں خام چہروں سے گزرا ہوا مسافر ہوں
کہیں نہیں ہے وہ ایسا جمال رکھتا ہے

0
74