راہ تکتی ہے دل کی تنہائی
کب سے ٹوٹی پڑی ہے شہنائی
وہ مری روح سے لپٹتی ہے
کیسی پوشاک تونے پہنائی
ان کا جلوہ کہیں ہوا ہوگا
آنکھ میں برق سی ہے لہرائی
دم بخود ہیں کمال قدرت سے
دیکھ کر ان کی بزم آرائی
زلف ان کی کہیں کھلی ہوگی
رقص کرنے لگی ہے پروائی
آگہی کا مزا نرالا ہے
دو کٹورے وہ آج بھر لائی
فرق اتنا ہے تیری دنیا میں
دل کی قیمت نہیں ہے سرسائی
کیسے سہتا ستم قیامت کے
آئینے پر پڑی تھی انگڑائی
ہے جو دل میں بسا ہوا ہر دم
کیسے کہہ دوں اسے میں ہرجائی
دیکھ کر مجھ کو منتظر تیرا
چشم نرگس بھی آج شرمائی
دیکھ کر یوں اداس تم کو اویس
رت بہاروں بھری بھی کملائی

59