کیوں ڈوبتے ہُوئے کو بچایا نہیں گیا
ہمدردی کے سبق کو نبھایا نہیں گیا
محوِ تماشہ بننے کی لت رہتی ہے بری
دکھ کی گھڑی میں دکھ بھی جتایا نہیں گیا
مطلب پرستی بڑھ چکی اب تو بے انتہا
"تشنہ لبی میں جام پلایا نہیں گیا"
بے اعتنائی بن گئی مرغوب طبع تو
بیگانگی کو ہم سے رکایا نہیں گیا
ہے انقلاب کے نہ پنپنے کا اک سبب
بیداری کی مہم کو چلایا نہیں گیا
ہر نوجوان قیمتی گوہر ہے قوم کا
صد حیف، نسلِ نو کو جگایا نہیں گیا
ملت کی پستی دل مرا ناصؔر دُکھاتی ہے
سینہ سے غم کبیر بھلایا نہیں گیا

0
47