قطرے کو بحر کر دے صدقے حبیب کے
مولا یہ مِہر کر دے صدقے حبیب کے
ہے ظلمتوں نے گھیرا مقصود نور ہے
دل مثلِ مہر کر دے صدقے حبیب کے
مجھ میں سکت کہاں ہے نارِ سعیر کی
آسان حشر کر دے صدقے حبیب کے
منزل بنے جو بطحا قربان جان و دل
یہ شہر قدر کر دے صدقے حبیب کے
قلبِ حزیں میں نالے ناقابلِ بیاں
تاباں یہ صدر کر دے صدقے حبیب کے
مولا میں امتی ہوں آقا کریم کا
جیون کو امر کر دے صدقے حبیب کے
کوزے میں آئے دریا داتا کریم تو
عاجز ہوں نصر کر دے صدقے حبیب کے
گزرے دہر کے یہ پل ہوں نا تمام میں
قوسی کو بدر کر دے صدقے حبیب کے
محمود بندہ تیرا بردہ حبیب کا
مسعودِ دہر کر دے صدقے حبیب کے

32