تُو جو چاہے تو بنا دے پیار کے قابل مجھے |
چاہتا ہوں یہ کہ ہو تقویٰ عطا کامل مجھے |
ہے بِلا شک زندگی بے بندگی شرمندگی |
ہوں تِرا بندہ کیا ہے عشق نے گھائل مجھے |
حسن اس کا پوچھتے ہو اس سے اندازہ کرو |
ایک نظّارہ ہی اس کا کر گیا بسمل مجھے |
احترامِ آدمیت ہے شرَف انسان کا |
ورنہ حیواں بھی لگے ہیں پیار کے حامل مجھے |
رہنمائی کے لئے بھیجے گئے جتنے سفیر |
سب نے بتلایا کہ کیا ہے زیست کا حاصل مجھے |
گو مجھے دعویٰ نہیں صحرا نوردی کا مگر |
اپنے دیوانوں میں رکھیو اے خُدا شامل مجھے |
جانتا ہوں ہے ادب پہلا قرینہ پیار کا |
قُرب کے پہلے سبق نے ہی کیا فاضِل مجھے |
لے کے جاؤں کس عدالت میں جہاں انصاف ہو |
زخم خود دے اپنے ہاتھوں سے کہے قاتِل مجھے |
راستہ جب پوچھنا ہو میں نظر آؤں انہیں |
سب سمجھتے ہیں یہی معلوم ہے منزل مجھے |
عاجزی سے پیش آنے کا یہ مطلب تو نہیں |
میرا دشمن بھی سمجھ بیٹھے کبھی بُزدل مجھے |
اس لئے رہتا ہے ہر دم اپنی سرحد کا خیال |
حملہ آور ہو نہ شیطاں پا کے یوں غافل مجھے |
طارق اتنا کیوں رہا ہے تم کو دنیا کا خیال |
زندگی بھر تم نے ڈالی کس قدر مشکل مجھے |
معلومات