نہ دیکھ خواب نئے، کوئی ان بہاروں میں
سفیرِ دشت ہوں، رہتا ہوں خارزاروں میں
نہ مجھ کو لذتِ گل چاہیے، نہ رنگ و بو
میں پل چکا ہوں خزاں کی ہی یادگاروں میں
ملی ہے خاک سفر کی جو میری آنکھوں کو
وہ روشنی نہیں پائی کبھی ستاروں میں
میں سوگوار رہا عمر بھر ہنسی بن کر
نہ تھا سکون مجھے قہقہہ قطاروں میں
دلوں پہ زخم سجا کر جو چلتے رہتے ہیں
ملے ہیں مجھ کو وہی لوگ رہگزاروں میں
نہ کر تلاش مجھے خامشی کے منظر میں
میں چیختا رہا برسوں یہ دلفگاروں میں
نہ پوچھ حال مرا بزمِ زندگی میں ابھی
گزر گیا ہوں میں کانٹے لیے بہاروں میں
کلام:- خورشید حسرت

0
8