چھینے جو گھر ترا کوئی گھٹ جائے گا نہ دل
اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائے گا نہ دل
سُن کر کسی سے حال جو بھیگی ہے تیری آنکھ
سُن کر مری زبان سے پھٹ جائے گا نہ دل
تجھ کو کہاں ہے حوصلہ دیکھے یہ ظلم تُو
بچوں کی لاشیں دیکھ کے کٹ جائے گا نہ دل
اپنا وطن جو چاہئے واپس تو جان دیں
آخر مطالبے سے یہ ہٹ جائے گا نہ دل
پھٹ جائے گا کلیجہ ہیں آنکھیں جو اشک بار
پر غم کے بوجھ سے یونہی چھٹ جائے گا نہ دل
میں مانتا ہوں ظلم ہو دونوں طرف سے جب
پھر تو نہیں بعید کہ بٹ جائے گا نہ دل
طارق کلیجہ پھٹتا ہے سن کر یہ واقعات
چھینٹوں سے خون کے ترا اٹ جائے گا نہ دل

0
12