یہ محبت نہیں، سُن یہ الہام ہے
اس کی نہ ابتداء نہ ہی انجام ہے
ایک مدت ہوئی، تُجھ کو دیکھے ہوئے
ایک مدت ہوئی، سانس بے گام ہے
ایک مدت سے ہے، انتظارِ سحر
ایک مدت ہوئی، چار سُو شام ہے
ایک مدت سے گھر میں ہیں خاموشیاں
ایک مدت سے چائے بھی ناکام ہے
ایک مدت ہوئی، وعدہءِوصل کو
ایک مدت ہوئی، ہاتھ میں جام ہے
تُجھ سے بچھڑا ہے جب سے یہ مردار ہے
زندگی اب فقط ایک الزام ہے
باغ کے پھول سارے ہی مرجھا گئے
باغباں اب چھپانے میں ناکام ہے
پھول جب بھی کھلیں، تیری خاطر کھلیں
جس کی تقدیر پُر خار وہ خام ہے

182