کچھ اشک تو ہوتے ہی چھپانے کے لئے ہیں
موتی ہیں جو سجدوں میں لُٹانے کے لئے ہیں
کچھ درد تو ہوتے ہیں مریضوں کے مسیحا
جو سانس کے رشتوں کو نبھانے کے لئے ہیں
طوفاں سے الجھ جائیں جو ٹکرائیں ہوا سے
کچھ لوگ یہاں دیپ جلانے کے لیے ہیں
پھولوں کی محبّت میں نہیں کانٹوں سے نفرت
کانٹے بھی تو پھولوں کو بچانے کے لئے ہیں
ہم ان کو جو سمجھائیں کبھی جینے کا مقصد
کہتے ہیں کہ واعظ یہ بتانے کے لئے ہیں
ہر بستی میں بھیجے تھے خدا نے ہی پیمبر
رہبر یہ بنے خود ہی زمانے کے لئے ہیں
طارق نہ پہنچ پائے جو منزل پہ کبھی خود
آئے وہ تمہیں رستہ دکھانے کے لئے ہیں

0
84