مری جوانی کو اس موڑ سے بچھڑنا ہے
جو دن گزر گئے ہیں ان کو یاد کرنا ہے
تمام عمر میں دوڑا ہوں جیتنے کے لیے
ٹھہر کے مجھ کو اب سکھ کا سانس بھرنا ہے
تمام عمر کہیں پستیوں میں کھویا رہا
ان ذلتوں سے تو اب آج سے ابھرنا ہے
میں اپنے جسم کو اب تک نکھارتا ہی رہا
اب اپنی ذات میں مجھ کو بہت نکھرنا ہے
وہ وعدے جن کو نبھانا کبھی نہ تھا ممکن
تمام وعدوں سے مجھ کو اب مکرنا ہے
یہ صارفیں کی معیشت ہے تم نہیں تو کیا
تمھارے دوست پر اس بار مجھ کو مرنا ہے
جو کرنا چاہتا تھا زندگی میں میں شاہد
وہ کام اب مجھے جلدی سے کر گزرنا ہے

0
50