میرےسُلگتے دل سے اک صدا آ رہی ہے
زندہ ضمیر ہے تیرا مجھ کو بتا رہی ہے
اٹھ غفل و ناداں اور سن یہ راز تو بھی
جو آہٹ مخلوق خدا سے آ رہی ہے
اور چھپی ان میں قدرت کو بھی دیکھو
رنگ بدل کے ہمیں آزماۓ جا رہی ہے
ہوں خاموش اب اپنے ہی بادِ سخن پر میں
آشنائ جو اپنے پاؤں جما رہی ہے
نابن سکے گی گُل یہ کھل کر کبھی بھی
جو کلی کانٹوں سے دامن بچا رہی ہے
رحمت علی

172