| میرےسُلگتے دل سے اک صدا آ رہی ہے |
| زندہ ضمیر ہے تیرا مجھ کو بتا رہی ہے |
| اٹھ غفل و ناداں اور سن یہ راز تو بھی |
| جو آہٹ مخلوق خدا سے آ رہی ہے |
| اور چھپی ان میں قدرت کو بھی دیکھو |
| رنگ بدل کے ہمیں آزماۓ جا رہی ہے |
| ہوں خاموش اب اپنے ہی بادِ سخن پر میں |
| آشنائ جو اپنے پاؤں جما رہی ہے |
| نابن سکے گی گُل یہ کھل کر کبھی بھی |
| جو کلی کانٹوں سے دامن بچا رہی ہے |
| رحمت علی |
معلومات