رونق دہر میں ساری جن کے کرم سے ہے
کامل جہاں کی زینت ان کے قدم سے ہے
گردوں میں ہے جو جھلمل اجرامِ نور کی
ان کو یہ داد نوری شاہِ امم سے ہے
نورِ مبیں سے زائل ہر دم ہیں ظلمتیں
ڈنکا فلاح کا بھی اُن کے عَلم سے ہے
دولت درِ نبی سے ملتی ہے دین کی
ہر گنج خیر کا بھی فیضِ اتم سے ہے
خالی لیے جو جھولی خدمت میں آ گیا
امید اس کی پوری شاہِ حرم سے ہے
خاطر درِ نبی میرا دل فگار ہے
ہر گھاؤ کا جو درماں بطحا ارم سے ہے
بادِ صبا ہے لے جا یہ عرضِ عاجزی
محمود کچھ حزیں سا بطحا کے غم سے ہے

43