| جاں بلب ہوتے مشالوں کی آبرو رکھ لی |
| سَحَر نے غمزدہ حالوں کی آبرو رکھ لی |
| امیدِ جلوہ ئے جاناں سے دِل شکستہ تھا |
| خُدا نے پھر مِرے نالوں کی آبرو رکھ لی |
| مِرے حبیب تجھے رحم آ گیا کیسے؟ |
| کیوں آج درد نِہالوں کی آبرو رکھ لی |
| بہک گیا تھا جوانی کے جوش میں آ کر |
| مگر پھر اپنے خصالوں کی آبرو رکھ لی |
| جب آئی بات بزرگوں کی لاج پر۔ کٹ کے |
| ہمی نے اُن کی مثالوں کی آبرو رکھ لی |
| نہ تھا تُو تو کھبی قائل شکستہ شیشوں کا |
| کیوں آج ٹوٹے پیالوں کی آبرو رکھ لی |
| خدا دراز کرے عمر جانِ زیدؔی تری |
| کہ تو نے چاہنے والوں کی آبرو رکھ لی |
معلومات