| مجھ سا اک شخص ہو بہ ہو مجھ میں |
| کرتا ہے میری جستجو مجھ میں |
| خود سے بھی دور میں چلا آیا |
| اب نہیں کوئی آرزو مجھ میں |
| روشنی کا نشاں بھی باقی نہیں |
| پھیلی ہے رات کو بہ کو مجھ میں |
| کوئی بھی تو نہیں مرے اندر |
| کرتا ہے کون گفتگو مجھ میں |
| مجھ میں میرا میں بھی نہیں باقی |
| اس قدر آ بسا ہے تو مجھ میں |
| پڑی ہے ایسی ہجر کی سردی |
| جم گیا ہے مرا لہو مجھ میں |
| تُو اگر کوئی آرزو ہی ہے |
| تیری کیوں کر ہو آرزو مجھ میں |
| اب یہاں کوئی قافلہ نہ رکے |
| راہ بھٹکا ہوا ہے تُو مجھ میں |
| جس نے میرے يقیں کو مارا ہے |
| بیٹھا ہے کیوں وہ قبلہ رو مجھ میں |
معلومات