وہی کمال حسن ہے وہی جمال دل ربا
وہی کمال بے رخی وہی جمال خوش نما
اسی کے اک خیال میں تمام عمر کاٹ دی
اسی کے وصل کی تڑپ کہ جان سے گزر گیا
اسی کی قدر و منزلت کا تھا خیال اب تلک
وگرنہ میں تو کب کا اپنی آن سے گزر گیا
وہی نسیم صبح ہے وہی بہار جاں فزا
وہی نہ ہو تو ہر چمن خزاں ہی کا شکار ہے
بس اس کے دید کی لگن ہی میرے دل کا چین تھی
یہ اس کے ہجر کا اثر کہ دل میں اضطرار ہے
بس اب  زبان بند کر نہ کھول اپنے دل کا حال
بجز رضا کہ جانِ من  کسے ترا خیال ہے

128