روپ ایسا کہ کنول ہو جیسے
چاندنی تیرا بدل ہو جیسے
وہ کہانی میں کہیں کھوئی ہے
زندگی میں بھی خلل ہو جیسے
دل یہ کس زد پہ ڈٹا ہے آ کر
ایک خواہش کہ اٹل ہو جیسے
شعر کہتی ہے زرا سا یارو
اس کا ہر لفظ غزل ہو جیسے
وہ نظر سے بھی گراتی ہے یوں
سامنے والا نفل ہو جیسے
نام لینے سے مرا ڈرتی ہے
میں عطا ہوں کہ اجل ہو جیسے

0
36