جو سوچ تھی خیال تھا وہ سب ہی خواب ہو گیا |
غضب کیا جو تجھ کو یوں میں دستیاب ہو گیا |
وہ ٹھیک تھا فراق ہی وہ ٹھیک تھیں سو دوریاں |
وہ لذتِ وصال میں تو سب خراب ہو گیا |
وہ قربتوں کے شوق میں سناؤں کیا میں حالِ دل |
وہ شوقِ دید و وصل میں جو میں جناب ہو گیا |
یہ ہیں فنا کی منزلیں جو عشق میں کرے گا طے |
جو ہو گیا یوں سرخرو کہ آفتاب ہو گیا |
لا حاصلات و حاصلات کا بھی ہے یہ فلسفہ |
جو مل گیا ختم ہوا سو آب آب ہو گیا |
ہے زیست کا صلہ یہی کہ خود کو کھونا ہے یہیں |
رہا نہیں کہیں کا وہ جو بازیاب ہو گیا |
یہ ہے کمالِ عشق ہی جو اب دکھاتا ہے مجھے |
جو سچ رہا تھا تب کبھی وہ ہی سراب ہو گیا |
سو عشق کی کتاب میں یہ انکشاف ہو گیا |
جو نامراد ہو گیا وہ کامیاب ہو گیا |
حدود تیری کو بڑھایا عشق نے کچھ اس طرح |
وجود تھا حساب کا تُو بے حساب ہو گیا |
کہ اس سفر میں اے ہمایوں یہ پتہ چلا نہیں |
کہ ایک نقطے سے تو کیسے کب کتاب ہو گیا |
ہمایوں |
معلومات