| محبتوں کے دیے تم بجھائے بیٹھے ہو | 
| یہ نفرتوں کی جو دھونی رمائے بیٹھے ہو | 
| کہ فصل کینوں کی دل میں اُگائے بیٹھے ہو | 
| خدا ہی جانے خدا کیوں بھلائے بیٹھے ہو | 
| اَلاؤ دشمنی کے کیوں جلائے بیٹھے ہو | 
| خدا کے بندوں کو کیوں کر لڑائے بیٹھے ہو | 
| سبھی نے اللہ کو اپنا جواب دینا ہے | 
| یا تم اکیلے ہی ٹھیکہ اُٹھائے بیٹھے ہو | 
| بجاتے رہتے ہو ڈنکا ہی اپنی نیکی کا | 
| مگر گناہ جہاں سے چھپائے بیٹھے ہو | 
| طاہرہ مسعود | 
 
    
معلومات