موت کے سائے تلے اب ہے سفر میں زندگی
کیسا یہ عفریت ہے جس کے اثر میں زندگی
کوچہ و بازار خالی ، بستیاں ویران ہیں
دوست جس سے جا چکے ایسے شہر میں زندگی
کار زارِ زندگی مشکل تھا اب وہ بھی نہیں
مستقل بیٹھے ہوئے ہیں اپنے گھر میں زندگی
موت کا ہے اب شمار کیا کریں اس کا علاج
صبح سے اب شام تک بری خبر میں زندگی
وہ بھی اب ملتے نہیں پہرے لگے ہیں چار سو
دید کیسے ہو کہ ہے اب تو ہجر میں زندگی
کیسے کیسے خواب تھے اور کیسی کیسی خواہشیں
لٹ گئے اب خواب سارے ہے بھنور میں زندگی
اب تغیر ہے جہاں میں کچھ نیا ہونے کو ہے
21 ویں صدی میں اب نئی ڈگر میں زندگی
دیکھنا ہے کیا اگلتی ہے لہر جو آئی ہے
گہر ہو یا وہ شرر اب ہے جزر میں زندگی

0
63