رات دن اک پکار باقی ہے
بندگی کا شمار باقی ہے
نہ ندامت نہ ہے پشیمانی
دیدۂ اشک بار باقی ہے
دل سے ایمان اٹھ گیا ان کے
اب تو خالی قطار باقی ہے
کوئی چلتا نظر نہیں آتا
اب فقط رہ گزار باقی ہے
وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا
خود وہ غائب مدار باقی ہے

0
42