| تینتیس برس نام رہے دید و بصر کے |
| ہم ہی نا جانیں گے بھلا بھید نظر کے |
| کہتے ہیں کہ آنکھوں کی مسیحائی ہے آسان |
| آنکھوں کی مسیحائی ذرا دیکھو تو کر کے |
| بجلی سی چمکتی ہے جو ہلتی ہے ذرا آنکھ |
| شعلہ سا لپکتا ہے کہیں بیچ نظر کے |
| میں ہوں کہ احاطہ ءِ نظر میں بھی نہیں ہوں |
| تو ہے کہ مسلسل ہے مرکز پہ نظر کے |
| دل کو گنوا بیٹھا ہے آنکھوں کا مسیحا |
| کچھ تو سنو کہتے ہیں کیا لوگ نگر کے |
| پیکر جو تراشا ہے ترا تجھ سے حسیں ہے |
| دیکھو نا کسی روز مرے دل میں اتر کے |
| جاذب بھی ہے پیارا بھی تیرا رخِ زیبا |
| دل میں یہ اترتا ہے آنکھوں میں ٹھہر کے |
| اپنی ہی نظر خود کو لگا بیٹھو گے اک دن |
| بیٹھو نہ سرِ آئینہ یوں بن کے سنور کے |
| جینا جسے کہتے ہیں کہاں تیرے بناں ہو |
| ہاں سلسلے جاری ہیں شام اور سحر کے |
| سنتے تھے جگاتے ہیں کوئی نیناں بھی جادو |
| ہم بھی ہوئے قائل ترے نینوں کے سحر کے |
| کیا دل پہ گزر جاتی ہے یہ پوچھو نا مظہرؔ |
| انجان سے جب بن کے جاتے ہیں گزر کے |
معلومات