لہو میں ڈوبتے بچے، جلے کتبے، جفا کا راج
فغاں میں ڈھل گئی مسجد، ندا میں کھو گیا اعراج
زمیں پہ کربلا ہر صبح بنتی ہے نئی صورت
خدا کی بستیوں پر ہے عدو کا خنجرِ معراج

3
101
ہادی میاں ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں کہ یہ قطعہ زبان و بیان کے اعتبار سے بالکل سمجھ نہیں آیا
اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح فرما دیجیے گا -

لہو میں ڈوبتے بچے، جلی کتبیں، جفا کا راج
== کتاب کی جمع کتب ہوتا ہے اسکی جمع الجمع کچھ نہیں ہوتی - کتبیں اردو میں کوئی لفظ نہیں ہے
== جس بھیانک صورتِ حال کا آپ ذکر کر رہے وہ طلم و قہر کا راج ہے - جفا کا نہیں - جفا تو ایک == بہت معمولی یا ہلکا لفظ ہوا ، اس صورتِ حال کے لیے -
== آپ کے جملے کی گرامر کا تقاضا ہے کہ یہاں ہوتا، لہو میں ڈوبے ہوئے بچے، نہ کہ ڈوبتے بچے -


فغاں میں ڈھل گئی مسجد، ندا میں کھو گیا اعراج
== اعراج خالص عربی کا لفظ ہے اردو میں کبھی نہیں آیا - یہ لفط اردو میں استعمال ہی نہیں ہوتا سوائے کسی دینی کتاب میں عربی کے حوالے سے -

زمیں پہ کربلا ہر صبح بنتی ہے نئی صورت
== کربلا بنتی نہیں ہے - کربلا بپا ہوتی ہے - کربلا ہوتی ہے

خدا کی بستیوں پر ہے عدو کا خنجرِ معراج
خنجر معراج تو تعریفی اصطلاح ہوئی - آپ کو تو کہنا تھا خنجر کے ظلم کی معراج نہ کہ خنجر کی معراج-

شکریہ

0
محترم و مکرم ارشد رشید!

آپ کی توجہ اور تنقیدی بصیرت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ ایسے مکالمے ہی شعر و سخن کو نکھارتے ہیں۔ البتہ چند گزارشات، صرف وضاحت کے لیے، پیشِ خدمت ہیں:

1. "کتبیں" کے حوالے سے:
یہ آٹو ٹائپ کیبورڈ کی وجہ سے لکھا گیا ہے - اصل لفظ 'جلے کتبے' ہے

2. "جفا کا راج" بمقابلہ "ظلم و قہر"
درست ہے کہ "ظلم" زیادہ معروف لفظ ہے، مگر "جفا" کا انتخاب ایک فنکارانہ اختیار (poetic license) ہے۔
یہاں "جفا" کا انتخاب ایک نرم تر مگر دل چیرنے والا اثر پیدا کرتا ہے۔
"ظلم و قہر" شاید نعرے جیسا ہو جاتا، جب کہ "جفا" میں نرم خنجر کی چبھن ہے۔
3. "ڈوبتے بچے" کے بجائے "ڈوبے ہوئے بچے"؟
بجا ارشاد، مگر یہاں "ڈوبتے بچے" ایک جاری منظرنامہ، continuity اور horror in motion کا تصور پیدا کرتا ہے۔
جبکہ "ڈوبے ہوئے بچے" ماضی کا فریزڈ لمحہ بن جاتا۔
میرے مصرعے میں، کرب ابھی جاری ہے، وقت کے ساتھ رواں ہے — اسی لیے "ڈوبتے" کا استعمال شعوری ہے۔

4. "اعراج" کا اعتراض:
"اعراج" عربی الاصل سہی، مگر یہ اردو کے ادبی دائرے سے خارج نہیں۔
یہاں لفظ کا استعمال "ندا" یعنی صدا/بلندی/پیغام میں کھو جانے والے روحانی یا معنوی عروج کے لیے بطور تشبیہ آیا ہے۔
اس کا استعمال ایک کلاسیکی شاعر نے کیا ہے
***اعراجِ وقتِ زیست نے بخشا ہے یہ سبق
ہر عرش، خاک ہوتا ہے انجامِ کار میں


5. "کربلا بنتی ہے" بمقابلہ "بپا ہوتی ہے"
لغوی طور پر "کربلا بپا ہوتی ہے" درست اصطلاح ہے۔
مگر "بنتی ہے" کا استعمال یہاں تصویری انداز میں ہے — جیسے ہر روز ایک نیا منظرنامہ، ایک نئی کربلا تخلیق پا رہی ہو۔
یہ "بنتی" دراصل metaphor ہے کہ:
ظلم کا منظر نامہ ہر دن نئی شکل میں پیدا ہو رہا ہے۔

6. "خنجرِ معراج" – تعریفی یا طنزیہ؟
یہاں "خنجرِ معراج" ایک طنزیہ استعارہ ہے۔

مطلب یہ نہیں کہ خنجر قابلِ فخر ہے، بلکہ یہ کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے — یعنی خنجر بھی معراج پر ہے!
جیسا کہ کہا جاتا ہے: "ظلم کی انتہا ہو گئی!" — بالکل اسی فضا میں یہ ترکیب برتی گئی ہے۔
شاعری میں ایسے طنزیہ استعمال بہت عام ہیں، مثلاً:
"بےوفائی کی بھی کیا خوب ادا نکلی!"

میں تہِ دل سے آپ کی تنقید کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ تخلیق اگر قابلِ سوال نہ ہو تو بامعنی نہیں بن سکتی۔
تاہم، کچھ نکات تخلیقی زبان اور شعری رمز کی روشنی میں دیکھے جائیں تو شاید بہتر طور پر سمجھ میں آ سکیں۔

میں ہر لفظ کی اصلاح پر کھلا ہوں، بشرطیکہ وہ فنی حسن، معنوی جہت اور جذباتی عمق کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

والسلام
----سید ہادی علی

ہادی میاں - سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ آپ کا یہ تفصیلی جواب پڑھ کر دل خوش ہوگیا کہ ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جو اتنی گہرای میں جا کر سوچتے ہیں - آپ نے اپنی ہر بات کا ایک تکنیکی جواب دیا ایسا میں نے کم ہی دیکھا ہے آگے اتنا عرض کروں گا کہ اب جو میں لکھ رہا ہوں اسے بحث برائے بحث نہ سمجھیئے گا - میرا زاویہ نظر جو آپ سے مختلف ہے -

1. "کتبیں" کے حوالے سے:
یہ آٹو ٹائپ کیبورڈ کی وجہ سے لکھا گیا ہے - اصل لفظ 'جلے کتبے' ہے
--- جی بات واضح ہو گئ- لہو میں ڈوبتے بچے، جلے کتبے، جفا کا راج - اب اگر یہ کتبہ کی بات ہو رہی ہے جو قبروں پر لگتا ہے تو اس کا لہو میں ڈوبتے ہوئے بچوں سے کیا تعلق ہوا ؟ جلے کتبے کے ساتھ کھلی قبریں جیسئ اصطلاح جاتی ہے - شعر میں ہر فقرہ دوسرے فقروں سے مربوط ہونا چاہیئے -

2. "جفا کا راج" بمقابلہ "ظلم و قہر"
درست ہے کہ "ظلم" زیادہ معروف لفظ ہے، مگر "جفا" کا انتخاب ایک فنکارانہ اختیار (poetic license) ہے۔یہاں "جفا" کا انتخاب ایک نرم تر مگر دل چیرنے والا اثر پیدا کرتا ہے۔
"ظلم و قہر" شاید نعرے جیسا ہو جاتا، جب کہ "جفا" میں نرم خنجر کی چبھن ہے۔

- جناب بات شاعرانہ لبرٹی کی یہاں لاگو نہیں ہو سکتی - آپ نے ایک ماحول بنا یا ہے تو اس کے مطابق ہی الفاظ ہونے چاہیئں - جٖفا کا تو یہ محل ہی نہیں ہے - ہلاکو خان کو آپ بے وفا کہہ سکتے ہیں؟ - ہر گز نہیں -
وفا و جفا کا حوالہ الگ حالات ہوتے ہیں - جفا تو دوست بھی کر سکتا ہے - بات ظالم کی ہو رہی ہے -
اور میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ یہاں ظلم و قہر لکھیں - مطلب یہ تھا کہ ایسی بات کہ ایسا مطلب نکلے -
مثال کے طور پر " فنا کا راج "

3. "ڈوبتے بچے" کے بجائے "ڈوبے ہوئے بچے"؟
بجا ارشاد، مگر یہاں "ڈوبتے بچے" ایک جاری منظرنامہ، continuity اور horror in motion کا تصور پیدا کرتا ہے۔
جبکہ "ڈوبے ہوئے بچے" ماضی کا فریزڈ لمحہ بن جاتا۔
میرے مصرعے میں، کرب ابھی جاری ہے، وقت کے ساتھ رواں ہے — اسی لیے "ڈوبتے" کا استعمال شعوری ہے۔
--- آپ کا مصرعہ ہے
"لہو میں ڈوبتے بچے، جلے کتبے، جفا کا راج" - یہ زمانہ حال کا تذکرہ ہے کیونکہ آپ نے راج کا لفظ استعمال کیا ہے - گویا کچھ عرصے سے - اس تناظر میں ڈوبتے بچے نہیں آئیگا کیونکہ یہ زمانہ حال جاری ہوا - یہاں آپ نے ایک ماحول بنایا ہے - ماحول کا مطلب ہی ایک ٹائم فریم ہوتا ہے لہذا یہاں ڈوبے ہوئے بچے گرامر سے صحیح ہوگا -

4. "اعراج" کا اعتراض:
"اعراج" عربی الاصل سہی، مگر یہ اردو کے ادبی دائرے سے خارج نہیں۔
یہاں لفظ کا استعمال "ندا" یعنی صدا/بلندی/پیغام میں کھو جانے والے روحانی یا معنوی عروج کے لیے بطور تشبیہ آیا ہے۔
اس کا استعمال ایک کلاسیکی شاعر نے کیا ہے
***اعراجِ وقتِ زیست نے بخشا ہے یہ سبق
ہر عرش، خاک ہوتا ہے انجامِ کار میں
--- ایسے الفاظ جس کا استعمال عموما نہیں ہوتا ہو بلکہ وہ اردو نے اپنائے ہی نہ ہوں استعمال کرنا کلام کو فصاحت و بلاغت سے گرا دیتا ہے -


5. "کربلا بنتی ہے" بمقابلہ "بپا ہوتی ہے"
لغوی طور پر "کربلا بپا ہوتی ہے" درست اصطلاح ہے۔
مگر "بنتی ہے" کا استعمال یہاں تصویری انداز میں ہے — جیسے ہر روز ایک نیا منظرنامہ، ایک نئی کربلا تخلیق پا رہی ہو۔
یہ "بنتی" دراصل metaphor ہے کہ:
ظلم کا منظر نامہ ہر دن نئی شکل میں پیدا ہو رہا ہے۔
---- جی اتنا تو میں بھی سمجھا کہ آپ کربلا بنا رہے ہیں مگر آپ کے الفاظ "زمیں پہ کربلا ہر صبح بنتی ہے نئی صورت" اس میٹافور کا ساتھ نہیں دے رہے - میٹافور کی صورت میں تو بنتی ہے اور بھی غیر متعلق لفظ ہے -

6. "خنجرِ معراج" – تعریفی یا طنزیہ؟
یہاں "خنجرِ معراج" ایک طنزیہ استعارہ ہے۔

مطلب یہ نہیں کہ خنجر قابلِ فخر ہے، بلکہ یہ کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے — یعنی خنجر بھی معراج پر ہے!
جیسا کہ کہا جاتا ہے: "ظلم کی انتہا ہو گئی!" — بالکل اسی فضا میں یہ ترکیب برتی گئی ہے۔
شاعری میں ایسے طنزیہ استعمال بہت عام ہیں، مثلاً:
"بےوفائی کی بھی کیا خوب ادا نکلی!"

---- اتنا تو میں سمجھ گیا کہ یہ طنز ہے مگر یہ نبھا نہیں ہے - خدا کی بستیوں پر ہے عدو کا خنجرِ معراج

باقی یہ کہ آپ میری باتوں سے اتفاق نہ کریں تو آپ کی مرضی ہے - میرا مقصد نشاندہی تھا آپ تک پیغام پہنچ گیا - آپ کو اتفاق نہ کرنے کا حق حاصل ہے -

اس بحث کو یہیں سمیٹتے ہیں -