کسی نے پر اگر کاٹا نہیں ہے
پرندہ آج کیوں اُڑتا نہیں ہے
مِرے اندر سے یہ آواز آئی
کوئی بھی اور تو بولا نہیں ہے
بُریدہ ہیں زبانیں شہر بھر کی
اگرچہ سچ کوئی کہتا نہیں ہے
لہو میں حرف کی حرمت ہے شامل
یونہی کاغذ پہ لفظ اُترا نہیں ہے
محبت کا عجب ہی فلسفہ ہے
کوئی اس کھیل میں ہارا نہیں ہے
میں پھر اس در پہ آیا ہوں پلٹ کر
مجھے رستا ابھی بھولا نہیں ہے
زبانیں آؤ کاٹ دیں سبھی کی
یہاں تو کوئی بھی سچا نہیں ہے
تِری یادوں کے میلے میں کھڑا ہے
ترا عابد کوئی تنہا نہیں ہے

45