جھکے وہی سنور گئے
جو اڑ گئے بکھر گئے
نہ جن میں تھا خشوع خضوع
وہ نالے بے اثر گئے
مگر جو اشک حالِ دل
اگر بیان کر گئے
زمانے تیری چال سے
جو ڈر گئے وہ مر گئے
پڑا جو وقت جانے سب
کہاں گئے کدھر گئے
ترے حضور کے سوا
کبھی کسی کے در گئے
ہمیں ہتھیلیوں پہ سر
لئے احد بدر گئے
جو میرے ساتھ ساتھ تھے
کَسے ہوئے کمر گئے
وہ ایک شخص کیا گیا
سمے سبھی ٹھہر گئے
جو میرے دائیں بائیں تھے
وہ سب کہاں پہ مر گئے
یہ ابتدائے عشق ہے
ابھی سے آپ ڈر گئے
حبیب دل سے میرے گر
ڈریں کبھی اتر گئے

0
36