سفر ہے عشق کا، منزل نظر نہیں آتی،
یہی تو شانِ طلب ہے، خبر نہیں آتی۔
چراغ دل کا جلا، پھر ہوا کا طوفان آیا،
مگر یہ آگ بجھے، اثر نہیں آتی۔
جہاں میں شور ہے دولت، مقام و شہرت کا،
مگر سکونِ دل ادھر نہیں آتی۔
یہ کائنات بھی حیران ہے تری سوچوں پر،
کہ تجھ پہ کوئی حد مقرر نہیں آتی۔
وفا کے جرم میں گمنام ہو گئے اکثر،
یہی حقیقت ہے جو ظاہر نہیں آتی۔
جو خود کو جان لے، وہ رب کو پا بھی لیتا ہے،
یہ بات سب کو مگر خبر نہیں آتی۔
نہ چھوڑ ساحلوں پر تو کشتیِ امید اپنی،
یہ موج تھم بھی گئی، مگر نہیں آتی۔
ہزار زخم سہے، مسکرایا صبر کے ساتھ،
یہ جرأتِ دل اسے اکثر نہیں آتی۔
ندیمؔ، راہِ عمل چھوڑ دے نہ ایمان کو تو،
تجھے وہ منزل ملے گی جو ہر نہیں آتی۔

0
1