بے قدر ہوں نہ بے وفا ہوں میں
روشنی کے لیے جیا ہوں میں
چھُو لیا تو سمٹ گئی پل میں
دلنشیں یہ تری ادا ہوں میں
پھر ہے کیوں تشنگی سے جاں بوجھل
دل سے کہتا ہوں بس ترا ہوں میں
دور ہی سے سلام ہے میرا
عشق زہریلے کا ڈسا ہوں میں
تمہیں چھو کر چلی جو آتی ہے
وہ ترے شہر کی ہوا ہوں میں
زندگی مختصر ملی کاشفؔ
زندگی سے بہت خفا ہوں میں

109