دل و جگر کو چلو داغدار کرتے ہیں
ہم آج ذکرِ رخ و زلفِ یار کرتے ہیں
سیاہ زلفِ صنم، نازک از کلی ہیں لب
نقوشِ جاناں پہ ہم جاں نثار کرتے ہیں
کمال تیر فگن ہیں صنم ترے دو نین
ہدف بنا کے جگر، آر پار کرتے ہیں
تری گلی میں نگاہیں بچھائے لیل و نہار
ترا اے مہ جبیں ہم انتظار کرتے ہیں
کبھی ہو گا رخِ مہوش بجانبِ عاجز
اسی بھروسے بسر شب، نہار کرتے ہیں
تصورِ رخِ جاناں سے اے میاں عاجز
ہم اپنے دل کی خزاں کو بہار کرتے ہیں

0
5