اب آنکھ کیا اس کا اشارہ کیا تھا۔ |
ندی کیا ندی کا کنارہ کیا تھا۔ |
طوفان اٹھا تھا دل ہی دل میں اک۔ |
لہروں نے لہروں سے پکارا کیا تھا۔ |
ڈوبے جاتے تو کیا بچ جاتے تو کیا۔ |
بے بس کے آگے پھر سہارا کیا تھا۔ |
میں ناداں تھا ابھی سمجھ پایا زیست۔ |
آسانی یہ کیسی تب ہمارا کیا تھا۔ |
الفت تھی یا سب میرا وہمہ تھا۔ |
الفت کے بغیر کیسا تھا کیا کیا تھا۔ |
اک عمر سے ساحل بھی سمندر پی رہا۔ |
اب ایسی طلب کے سوا چارا کیا تھا۔ |
معلومات