نسلوں کی فطرت کے قانون کی مجبوری ہے
ڈسنا بھی ان سانپوں کے خون کی مجبوری ہے
شوق ہے کس کو بھٹکنے کا ایسے دربدر
یہ جلا وطنی تو مجنون کی مجبوری ہے
تجھ سِوا یہ داستاں نامکمل ہے مِری
ذکر تیرا میرے مضمون کی مجبوری ہے
اس کو بھی ہے علم اس سے بگڑنا کچھ نہیں
جلنا حاسد کے مگر خون کی مجبوری ہے
جرم دل چرانے کا ہے، گرفتاری ہو گی
کیا کریں صاحب یہ قانون کی مجبوری ہے

149