جان کی جان لینی ہے ہم نے
بات یہ ٹھان لینی ہے ہم نے
وہ کرے جو کبھی نصیحت بھی
سن کے کب مان لینی ہے ہم نے
ہو کوئی بھی ,کہیں پہ منزل اب
راہ ویران لینی ہے ہم نے
کل ملی تھی فقط نظر جس سے
شکل پہچان لینی ہے ہم نے
دل حویلی جو چاہی تھی پہلے
اب وہ ویران لینی ہے ہم نے
کارِ بیکار سے کوئی دن اب
آن اور شان لینی ہے ہم نے
ہمسفر جو بھی لینی ہے فیصل
کم گو انسان لینی ہے ہم نے

0
30