مجھے ایک پل بھی سکوں نہ تھا وہ حریفِ جاں میرے گھر میں تھا |
مجھے اس سے کچھ بھی گلہ نہیں "وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا" |
میری منزلیں کہیں کھو گئیں میرے خواب مجھ سے جدا ہوئے |
میری عمر گردِ سفر ہوئی میں ہمیشہ راہ گزر میں تھا |
مجھے وقت دیتا رہا صدا میں نہ سن سکا نہ سمجھ سکا |
نہ تھا قسمتوں میں لکھا ہوا کہیں شور میرے ہی سر میں تھا |
جو شروع میں تھے میرے ہم سفر وہ بلندیوں پہ پہنچ گئے |
میں وہیں پہ اب تک گڑا رہا کوئی نقص میرے ہنر میں تھا |
میں نے خود کو مفت لٹا دیا ہوا کچھ نہ اس سے بھی فائدہ |
وہ کبھی بھی یاں نہ پنپ سکے کوئی زہر میرے ثمر میں تھا |
معلومات