ہے بات بڑے غم کی بپتا یہ ہماری
ہے دائروں میں چلتے ہوئے عمر گزاری
برسوں سے تماشا ہے یہ جاری و ساری
منصف ہے جمورا تو محافظ ہے مداری
اب سانپ بھی نکلیں گے کبوتر بھی اڑیں گے
ہوتا ہے تماشا اور کھلتی ہے پٹاری
خود بھی تو دکھاتا ہے کمالات عجب سے
یہ بچہ جمورا ہی نا بن جائے مداری
وہ ریچھ ہو بندر ہو کتا ہو یا بکرا
کٹھ پتلی نئی ہو گی نیا ہو گا کھلاڑی
بندر بھی اچھل کود کریں لے کے ترازو
اب تو سزا پانے کی ہے شیر کی باری
روباه و سگ و کاگ سبھی خر کے چلو ساتھ
پھندے ہیں مچانیں ہیں ہانکے پہ شکاری
اس قوم نے دیکھی ہے بہت شعبدہ بازی
پر ذوقِ تماشا ہے ابھی جاری و ساری
بخشے نہ کوئی قوم کو آگاہی کی دولت
لازم ہے سزا اس کی یہ جرم ہے بھاری
وہ قائد ملت ہو یا ہو دخترِ جمهور
اندھی سی کوئی گولی سینے میں اتاری
ہے دار و رسن طوقِ مذلت یا سلاسل
رہبر ہو یا مادر ہو کوئی درد کی ماری
اس رات کے آخر میں سحر آئے گی پر نور
ہم نے تو اسی آس میں ہر رات گذاری
سر بھی ہیں کئیے پیش اسیرانِ وفا نے
یہ زلف یوں الجھی ہے نہیں جاتی سنواری
خاموش رہو مظہر خاموش رہو تم
ان عالی دماغوں پہ گراں ہو گی یہ زاری

0
11