بچپن سے میں نے خوب سجائے ہیں مرے خواب |
عرصہ سے تخیل میں بسائے ہیں مرے خواب |
میں ڈاکٹری کے لئے محنت میں مگن سا ہوں |
دشوار سہی پھر بھی کھِلائے ہیں مرے خواب |
روشن ہو سکے نام بھی اپنا یہی خواہش ہے |
اس واسطہ سارے ہی نبھائے ہیں مرے خواب |
پروانہ و شمع سے دیوانگی پائی جو |
دیرینہ و پر نور جگائے ہیں مرے خواب |
کہساروں نے ہمت کو بڑھایا ہے ہمیشہ ہی |
پھر آہنی بانہوں میں تھمائے ہیں مرے خواب |
دن رات تمناؤں کے پیچھے ہیں مصروف |
سر آنکھوں پر اپنے بٹھائے ہیں مرے خواب |
خطرات سے سب پار ہوتے بھی رہے ناصؔر ہی |
ماں باپ کی آہوں نے جِتائے ہیں مرے خواب |
معلومات