| دلوں کے سب غبار اشک بن گئے |
| نصابِ دردِ یار اشک بن گئے |
| جو ایک عمر سے چبھے تھے روح میں |
| نکالے جب وہ خار ، اشک بن گئے |
| ہزاروں سال تک ہوائیں نم رہیں |
| پھر ابرِ نو بہار اشک بن گئے |
| ہماری پلکوں کے وہ سارے خواب بھی |
| نہ جن کا تھا شمار ، اشک بن گئے |
| اندھیرے بن گئے ہیں اب تو ہم سفر |
| چراغ و نورو نار اشک بن گئے |
| نہ چارہ گر ہی اپنے کام ا سکے |
| وہ زخم تھے ہزار ، اشک بن گئے |
| زباں سے جو ادا نہ ہو سکے کبھی |
| وہ لفظ بار بار اشک بن گئے |
| کسی کی آہِ شب سے بجھ گئے دیے |
| ستارے بے شمار اشک بن گئے |
معلومات