دریا میں تو رہتا ہوں پلتا ہوں بھنور میں میں |
نایاب سا گوہر ہوں یوں اہلِ نظر میں میں |
خوشبو میں مری مالی ! گلشن کو نہا ڈالو |
وہ گل ہوں کہ کھلتا ہوں اک بار شجر میں میں |
معلوم نہیں مجھ کو منزل ہے کہاں میری |
سو اس لیے رہتا ہوں ہر آن سفر میں میں |
مقصد کے بنا جینا بے موت ہی مرنا ہے |
مقصود کو رکھتا ہوں ہر وقت نظر میں میں |
وہ نیّرِ تاباں ہوں نازاں ہیں ستارے بھی |
میں خاک نشیں گرچہ ہوں رشکِ قمر میں میں |
رفعت کی طلب میں ہوں دیوانوں سا پھرتا ہوں |
کوشش ہے کہ اٹھوں اب آغازِ سحر میں میں |
ویسے تو مری نظمیں دنیا کو نہیں بھاتیں |
اک دوست کہتا ہے یکتا ہوں ہنر میں میں |
میں شاہؔ نہیں گرچہ کہتے ہیں مجھے شاہیؔ |
اک شوقِ سلاطینی رکھتا ہوں جگر میں میں |
معلومات