غیروں کو ہم سے بیر نہیں
اتنے بھی اپنے غیر نہیں
کر چکے ہو دیدار اگر
کوچہِ جاناں ٹھیر نہیں
آج تو کہہ دو فی البدیع
دل میں رہا تو شعر نہیں
دِلبر الجھا زُلف میں نا
عشق اتنا گھمبیر نہیں
آتا ہجر میں صبر تھا کچھ
وہ بھی تیرے بغیر نہیں
عشق کے رہتے جام ابھی
زندگی میں ہوے سیر نہیں
مِؔہر اُٹھا دو سنگ تمہی
گر جُھکے وہ پھر خیر نہیں
-------٭٭٭--------

0
1
133
جناب کیا پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ بیر اور غیر کا قافیہ شعر اور گھمبیر کیسے ہوسکتا ہے ؟
یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ کیا لفظ ٹھہر کو ٹھیر بھی لکھ سکتے ہیں؟
یہ بھی بتا دیں کہ فی البدیع کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟
شکریہ۔

0