چلو اب غور کر لیتے ہیں شائد کُچھ سُنائی دے |
محبّت ہر قدم کم ظرف لوگوں کی دُہائی دے |
لِکھی ہے میں نے عرضی اِس عِلاقے کے وڈیرے کو |
مِرا لُوٹا ہؤا سامان واپس مُجھ کو بھائی دے |
بڑھی مہنگائی تو یارو، ہوئی ہے سرگِرانی بھی |
خدایا پھیر دے بچپن، مرے دل کو صفائی دے |
یہ کیسی رُت کہ جس میں کھو گئے ہیں آشنا چہرے |
جتن کتنے ہی کر ڈالے کوئی چہرہ دِکھائی دے |
چلیں جو ساتھ وہ دو گام چل کر چھوڑ جاتے ہیں |
ملے اب یُوں کوئی مُجھ سے جو لُطفِ آشنائی دے |
کِسی کے حق پہ نا لپکُوں درندہ، بھیڑیا بن کر |
مُجھے حق آشنا کر دے، الہی پارسائی دے |
یقیں آتا نہیں اُس شخص کو جب میری باتوں کا |
کہاں تک کوئی اپنی بے گُناہی کی صفائی دے |
خُدایا جِس کو چاہا ہے اُسی نے وحشتیں بخشِیں |
ابھی حسرتؔ کو اپنے یارؔ کے در کی گدائی دے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات