| اتنے بھی چراغوں کے دیوانے نہیں ہم بھی |
| جل جل کے مریں ایسے پروانے نہیں ہم بھی |
| اوروں کے سے آتے ہیں تڑپانے نہیں ہم بھی |
| الفاظ کے تیروں کو برسانے نہیں ہم بھی |
| یہ وقت بھی آنا تھا اس نے ہمیں راہوں میں |
| یوں دیکھا نہیں دیکھا پہچانے نہیں ہم بھی |
| الفت کی کہانی میں کیا جھوٹ ہے سچ ہے وہ |
| اتنے بھی نہیں ناداں انجانے نہیں ہم بھی |
| وہ آ کے مرے دل میں ہے کون ذرا جھانکیں |
| دل چیر کے جائیں گے دکھلانے نہیں ہم بھی |
| وہ دل کی سبھی باتیں غیروں سے تو کرتے ہیں |
| کیسے انھیں سمجھائیں بیگانے نہیں ہم بھی |
| اک جیسی کہانی کا عنوان سہی بے شک |
| تم ایک حقیقت ہو افسانے نہیں ہم بھی |
| جاتے ہو چلے جاؤ ایسے ہیں انا پرور |
| آئیں گے کبھی تم کو سمجھانے نہیں ہم بھی |
| میخواروں کی جرات کیا چومیں کہ تری ساقی |
| مینا و صراحی ہیں پیمانے نہیں ہم بھی |
| وحدت میں عقیدت میں ہے فرق مزاروں پر |
| جاتے ہیں مگر لے کر نذرانے نہیں ہم بھی |
| ہر شخص سجائے ہے چہروں پہ کئی چہرے |
| ناداں ہی سہی لیکن انجانے نہیں ہم بھی |
| اس دل کی حبیب اب تک بے صبر امنگوں کو |
| دنیا بھی نہیں سمجھی پہچانے نہیں ہم بھی |
معلومات