تصور میں وہ رہتی ہے بناتی ہے وہ تصویریں
عجب ہے یاد تیری بھی جو پہناتی ہے زنجیریں
مری خاموشیوں کی بھی زباں تجھ کو پکارے ہے
کہ لے کے تجھ کو چلتی ہیں مری ساری ہی تقریریں
قلم جب بھی اٹھاتا ہوں کہیں کچھ بھی جو لکھنا ہو
تجھے پکڑے ہی رہتی ہیں نکلتی ہیں جو تحریریں
مجھے لذت سی ملتی ہے تری اس قید میں جاناں
مجھے آزاد ہونے کی نہیں کرنی ہیں تدبیریں
اگر تجھ سے محبت جرم ہے تو پھر بھی کرنا ہے
مجھے منظور ہیں ساری سزائیں ساری تعزیریں
کہ تیرے ساتھ جو دیکھے تھے ہم نے خواب جیون کے
سمیٹوں گا کبھی تو میں انھی سپنوں کی تعبیریں
چلو کچھ فیصلہ کر لیں کہ بانٹیں کس طرح سے ہم
محبت کی بنائی تھیں جو مل کے ساتھ جاگیریں
تو ڈالی کیوں خیالوں میں یہ لذت آشنائی کی
کہ رہنی تھیں الگ ہی جو تری میری یہ تقدیریں
یہ دل بےچین ہونا تھا یہ سوچ آوارہ ہونی تھی
جدائی کی تو آخر ہم کو ملنی تھیں یہ تاثیریں
کہ آوازیں ہیں جن کی عاری اس سوزِ محبت سے
وہ واعظ آتے ہیں مجھ کو بیاں کرتے ہیں تفسیریں
ہے کیسا کھیل یہ تیری ہمایوں بگڑی قسمت کا
کہ حصے میں ترے آئی ہیں ایسی کیوں یہ تحقیریں
ہمایوں

0
9