دل میں طوفان سا اب اٹھاےء ہیں وہ
زخم دل کے نہیں پر دکھاےء ہیں وہ
کانپتا ہے یہ دل سن کے نامِ وفا
دل پہ میرے ستم اس نے ڈھاےء ہیں وہ
کچھ قدر ہی نہ کی جن کی ہم نے کبھی
اب زما نے ہمیں یاد آےء ہیں وہ
ہم کو دیکھے نہ اب یہ خزاں بھی کبھی
اب بہارِ چمن ساتھ لاےء ہیں وہ
جن سے کوہِ گراں پھٹ کے گر نے لگیں
درد سینے میں ہم نے چھپاےء ہیں وہ
اک تماشہ سا ہے ساری دنیا ہمیں
کھیل پورا ہوا گھر کو جاےء ہیں اب
مجھ سے اک پل جدا وہ تو ہوتے نہیں
کیا کہوں اس قدر دل پہ چھاےء ہیں وہ
تنکا تنکا چنا جب نشیمن بنا
آشیاں برق نے اب جلاےء ہیں وہ
خون آنکھوں سے اب تو ٹپک نے لگا
روتا رہتا ہے دل تیر کھاےء ہیں وہ
مجھ سے ملتے نہ تھے زندگی میں کبھی
وقت ہے آخری اور آےء ہیں وہ
گھنٹی بج نے لگی اب تو اسلام یہ
پیڑ جنت میں بھی کیا لگاےء ہیں وہ
اسلام شکارپوری

0
52