شور کرتی ہیں صدائیں مجھ میں
سسک رہی ہیں تمنائیں مجھ میں
نہ جانے کہاں سے اتری ہیں
رقص کرتی ہیں اپسرائیں مجھ میں
فریبِ نظر نے ڈسا ہے تجھے
گنگنا رہی ہیں بلائیں مجھ میں
چمن مہکے گا بوئے گل سے
امڈ رہی ہیں گھٹائیں مجھ میں
مر گیا آسیب چہرہ مگر اس کی
تھرکتی رہتی ہے پرچھائیں مجھ میں
جب سے اسے سوچنا شروع کیا
آتی جاتی ہیں آتمائیں مجھ میں
طوفانوں سے نہ ڈرا اے شیخ!
چلتی ہیں سنسناتی ہوائیں مجھ میں
ڈال دو دعا کی قبائیں مجھ پر
رس گھولتی ہیں دعائیں مجھ میں

0
100