قضا و قدر کا لکھا مٹا نہیں سکتے
نصیب میں ہو فنا تو بچا نہیں سکتے
گلوں کی سیج بھی کانٹوں سے ہی گزرتی ہے
ادھورے خواب ابھی ہم سجا نہیں سکتے
نہ رہبری بچی ہے اور نا مسیحائی
ہنر بچوں کو بھی اب دلا نہیں سکتے
یتیم و مفلسوں کا حال کوئی نا پوچھے
دے بھی غریب کی خاطر صدا نہیں سکتے
سلوک نا روا جائز کبھی نہ ہو ناصؔر
بدل اگر ہو تمیں پھر بھُلا نہیں سکتے

0
62