یہ دستور چاہت کا اپنا نہیں ہے |
تو ہستی کو ہم نے مٹایا نہیں ہے |
ہے اس دل میں چاہت سمندر کی مانند |
جو چاہو تو لے لو یہ قطرہ نہیں ہے |
ابھی بھی تجلی ہے موجود لیکن |
جہاں میں کہیں کوئی موسیٰ نہیں ہے |
یہاں جس طرف بھی نظر دوڑتی ہے |
تو قاتل ہی قاتل مسیحا نہیں ہے |
کوئی دل میں خواہش نہیں ہے پنپتی |
یہ بنجر زمیں اب خیاباں نہیں ہے |
یہ سوزِ محبت ہے شا بیش قیمت |
نہ ہو یہ تو دل میں چراغاں نہیں ہے |
معلومات