یہ دستور چاہت کا اپنا نہیں ہے
تو ہستی کو ہم نے مٹایا نہیں ہے
ہے اس دل میں چاہت سمندر کی مانند
جو چاہو تو لے لو یہ قطرہ نہیں ہے
ابھی بھی تجلی ہے موجود لیکن
جہاں میں کہیں کوئی موسیٰ نہیں ہے
یہاں جس طرف بھی نظر دوڑتی ہے
تو قاتل ہی قاتل مسیحا نہیں ہے
کوئی دل میں خواہش نہیں ہے پنپتی
یہ بنجر زمیں اب خیاباں نہیں ہے
یہ سوزِ محبت ہے شا بیش قیمت
نہ ہو یہ تو دل میں چراغاں نہیں ہے

0
9
58
یہ دستورِ چاہت کا شیوہ نہیں ہے
کہ ہستی کو اپنے مٹایا نہیں ہے
== جب آپ نے دستورِ چاہت لکھ دیا تو شیوہ زوائد ہوا کیونکہ آپ کہہ رہے ہیں کی یہ دستورِ چاہت نہیں ہے - شیوہ تو دستور میں آگیا - شیوہ کو بدلنا ہوگا -
آگے آپ نے لکھا ہے "کہ ہستی کو اپنے مٹایا نہیں ہے" - پہلئ بات تو یہ کہ ہستی مونث ہے تو یہ ہوگا ہستی کو اپنی نہ کہ اپنے - اور پھر کس نے نہیں مٹایا ہے؟ - جملہ فاعل کے بغیر ادھورا ہوتا ہے -

جو چاہو تو لے لو سبھی درد میرے
مرا دل ہے دریا یہ قطرہ نہیں ہے
== درد کا دریا سے کوئی استعاہ بنانا ہوگا تبھی شعر بنے گا ورنہ تو ان دو مصرعوں میں کوئی ربط نہیں بنے گا -

بہت دیر کردی مرے باغباں نے
ہے صحرا ہی صحرا خیاباں نہیں ہے
== یہاں بھی آپ نے ایک مفروضہ سوچا ہے - باغبان کیا صحرا کو خیاباں بناتا ہے - یہ باغباں کا کام نہیں ہے

ابھی بھی تَجَلّی ہے موجود لیکن
رَہا اس جہاں میں وہ موسیٰ نہیں ہے

== وہ موسیٰ کیا ہوتا ہے - دنیا میں ایک ہی موسیٰ تھے - آپ وہ نکال دیں تو وزن سے تو گر جائے گا مگر جملہ صحیح ہو جائیگا - اس کو صحیح کریں

جہاں جس طرف بھی نظر دوڑتی ہے
تو خنجر ہی خنجر مسیحا نہیں ہے
== یہاں بھی وہی مفروضہ ہے - مسیحا کی ضد خنجر نہیں ہوتا - مسیحا لکھنا ہے تو کوئی ایسی چیز لائیں جس کا مسیحا سے تعلق ہو -

اگر کھیل ہو سارا تدبیر کا تو
یہ کرتب تو پھر بھی تمھارا نہیں ہے
== یہ شعر تو سمجھ ہی نہیں آ سکا -

یہ دردِ زمانہ ہے شاہ بیش قیمت
اسے تم چھپانا، دیکھانا نہیں ہے
== آپ نے شاہ بے وزن لکھا ہے - اسکا ہ بھی شمار ہوگا - اور دیکھانا کوئی لفط نہیں ہوتا یہ ہوتا ہے دکھانا -
پھر آپ اسے صحیح بھی کر لیں تو شعر اب بھی صحیح نہیں ہوگا - دردِ زمانہ کیوں بیش قیمت ہوتا ہے - ایسا درد محبت کے بارے میں کہہ سکتے ہیں - دردِ زمانہ الگ اصطلاح ہے -

اسلام علیکم!

میں نے ترامیم کی ہیں
آپ زرا دوبارہ جائزہ لیں

شکریہ


0
جی اب یہ پہلے سے بہتر ہے - اس میں مصرعوں میں ربط کی شعوری کوشش نظر آ رہی ہے

یہ دستورِ عشقِ پتنگا نہیں ہے
کہ شُعلہ پہ خود کو جلایا نہیں ہے
== دستور تو ایک ڈاکیومنٹ ہوتا ہے اس کو پتنگے سے کیسے تشبیہ دے سکتے ہیں -
== مشورہ
یہ دستور چاہت کا اپنا نہیں ہے ( بغیر کسرہِ اضافت)
تو ہستی کو ہم نے مٹایا نہیں ہے ( آپ کا پرانا والا مصرع)

یہ دردِ محبت ہے مانند دریا
جو چاہو تو لے لو یہ قطرہ نہیں ہے
== مشورہ
ہے اس دل میں چاہت سمندر کی مانند
جو چاہو تو لے لو یہ قطرہ نہیں ہے

ابھی بھی تجلی ہے موجود لیکن
جہاں میں کہیں اب کہ موسیٰ نہیں ہے
== مشورہ
ابھی بھی تجلی ہے موجود لیکن
جہاں میں کہیں کوئی موسیٰ نہیں ہے

یہاں جس طرف بھی نظر دوڑتی ہے
تو قاتل ہی قاتل مسیحا نہیں ہے
== مشورہ
نظر کس کی اس شہر کو لگ گئی پھر
ہیں قاتل ہی قاتل، مسیحا نہیں ہے

بہت دیر کردی مرے باغباں نے
ہے بنجر زمیں اب خیاباں نہیں ہے
== مشورہ
کوئی دل میں خواہش نہیں ہے پنپتی
یہ بنجر زمیں اب خیاباں نہیں ہے

یہ سوزِ محبت ہے شا بیش قیمت
جلے بن کہیں بھی چراغاں نہیں ہے
== مصرعے دو لخت ہیں
== مشورہ
یہ سوزِ محبت ہے شا بیش قیمت
نہ ہو یہ تو دل میں چراغاں نہیں ہے


0
ارے ہاں اور یہ تو میں نے دیکھا ہی نہیں
خیاباں اور چراغاں تو آپ کے قافیے ہی نہیں ہیں - آپ کے قافیے کے آخر میں صرف الف یا ہاے ہوز آنا ہے
نون غنہ نہیں آسکتا - ان دو اشعار کو بدلیے -

0
تو یہ بھی اہم ہے کہ دیکھا جائے کہ کونسا زاویہ نظر کہاں پر نکھار پیدا کرتا ہے

یہ دردِ محبت ہے مانند دریا
جو چاہو تو لے لو یہ قطرہ نہیں ہے
== مشورہ
ہے اس دل میں چاہت سمندر کی مانند
جو چاہو تو لے لو یہ قطرہ نہیں ہے

اور ایسے ہی

کوئی دل میں خواہش نہیں ہے پنپتی
یہ بنجر زمیں اب خیاباں نہیں ہے

خواہش کے پیدا نہ ہونے کے لیے پہلے ہی مصرے میں لفظ "پنپنے" سے بنجر زمیں کی طرف اشارہ۔


دل میں چاہت کو سمندر سے استعارہ دینا اور پھر اسکا موازنا قطرے سے کرنا بہت خوب ہے۔




0
یہ سوزِ محبت ہے شا بیش قیمت
جلے بن کہیں بھی چراغاں نہیں ہے
== مصرعے دو لخت ہیں
== مشورہ
یہ سوزِ محبت ہے شا بیش قیمت
نہ ہو یہ تو دل میں چراغاں نہیں ہے

یہاں پر " نہ ہو یہ تو دل میں چراغاں نہیں ہے " کے استعمال سے دونوں مصرعوں میں ربط اور بھی واضح ہوگیا۔


0
"ارے ہاں اور یہ تو میں نے دیکھا ہی نہیں
خیاباں اور چراغاں تو آپ کے قافیے ہی نہیں ہیں - آپ کے قافیے کے آخر میں صرف الف یا ہاے ہوز آنا ہے
نون غنہ نہیں آسکتا - ان دو اشعار کو بدلیے -"

کیا قافیہ کو آوازوں کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے؟
کیا مسیحا اور مٹایا ایسی آوازیں نہیں دیتیں جیسے چراغاں اور خیاباں ؟



0
نہیں - قافیے کا بنیادی اصول حرفِ روی کا ایک ہونا ہے - آپ نون غنہ کو الف کا قافیہ نہیں کرسکتے یہ طئے شدہ امر ہے اس میں کوئی تحقیق کی گنجائش نہیں - یہ اصول ہے اور آپ کو اس کا خیال رکھنا ہے -

0
بہت شکریہ
امید ہے آپ میری اصلاح جاری رکھیں گے

0