تلخ ہے یہ حقیقت فسانہ نہیں
ان دکھوں نے کبھی یار جانا نہیں
آج اک ہے تو کل پھر کوئی دوسرا
شکوہ اس کا مگر لب پہ لانا نہیں
فلسفہ امتحاں کا یہ دشوار ہے
ہر کسی کی سمجھ میں یہ آنا نہیں
آگ سی اک لگی ہے مرے سینے میں
آبِ دنیا سے ممکن بجھانا نہیں
ہے رِضا گر چھُپی اُس کی غم میں مِرے
پھر خوشی میں مجھے دل لگانا نہیں
مسکراہٹ لبوں پر سجی دیکھ لو
ساز غم کا مجھے بس بجانا نہیں
بس کرو تم بھی زیرک قلم روک دو
داغ دل کے ہمیں سب دکھانا نہیں

66