آئینہِ نازک کو خبر کر رہا ہوں
بازو والے مکاں میں گھر کر رہا ہوں
نازاں ہے زندگی مقدر پے مرے
چاہت میں سانسیں جو بسر کر رہا ہوں
دل و جاں چیز ہیں کیا فکر و نظر
میں خود کو ہی تری نظر کر رہا ہوں
شاہد رہنا اے محفلِ شب سبھی تم
یہ رات بھی آنکھوں میں سحر کر رہا ہوں
نم ہوتا ہو ان کا آنچل بھی کبھی تو
تنہا ہی کہیں دامن تر کر رہا ہوں!
اے جانِ مِؔہر سوچنا فُرصت میں کبھی
الفت کیوں تمہیں اتنی کر رہا ہوں؟
----------٭٭٭-----------

61