یہ فریب ہے یا خمار عشق ہمیں شام اپنی سحر لگے |
بڑی دلکشا ہے مگر فضا نہ کسی کی اس کو نظر لگے |
وہ کنار آب کی جستجو جو بھنور میں آ کے تڑپ اٹھی |
تو یقین کر کہ اسی گھڑی مجھے ناخدا وہ بھنور لگے |
تجھے کیا بتاؤں کہ کیا مزا ہے جنوں میں آبلہ پائی کا |
یہاں بڑھ کے تیری بہشت سے مجھے اپنا دشتٕ سفر لگے |
جو کسک اٹھے تو وہیں رہے بڑی شوخ ہیں تری چاہتیں |
ہو بدن بھی جس سے نا آشنا وہ نظر سے زخمٕ جگر لگے |
معلومات