یہ فریب ہے یا خمار عشق ہمیں شام اپنی سحر لگے
بڑی دلکشا ہے مگر فضا نہ کسی کی اس کو نظر لگے
وہ کنار آب کی جستجو جو بھنور میں آ کے تڑپ اٹھی
تو یقین کر کہ اسی گھڑی مجھے ناخدا وہ بھنور لگے
تجھے کیا بتاؤں کہ کیا مزا ہے جنوں میں آبلہ پائی کا
یہاں بڑھ کے تیری بہشت سے مجھے اپنا دشتٕ سفر لگے
جو کسک اٹھے تو وہیں رہے بڑی شوخ ہیں تری چاہتیں
ہو بدن بھی جس سے نا آشنا وہ نظر سے زخمٕ جگر لگے

45