جو جان بھی انہیں دے شیدا ہے مصطفیٰ کا
سامان زندگی کو آتا ہے مصطفیٰ کا
دوراں بصیرتوں کا کافور ظلمتیں ہیں
سورج حسین تر جو آیا ہے مصطفیٰ کا
چھایا ملے ہمیں گر کملی سے دلربا کی
پھر حشر تک یہ کافی سایہ ہے مصطفیٰ کا
باغِ حسیں ہے جنت بسیار رونقیں ہیں
خلدِ بریں خزیں کو بطحا ہے مصطفیٰ کا
امت ہے خیرہ ساری بادِ سموم ہر جا
پیغام بھولے ہیں جو لایا ہے مصطفیٰ کا
فضل و کرم ہو آقا عاصی ہیں پُر خطا ہیں
لیکن امان اب بھی سایہ ہے مصطفیٰ کا
محمود مانگے مولا بطحا سے پھر بلاوا
صدقہ حسین کا جو جایا ہے مصطفیٰ کا

0
9